میرے پاس لکھنے کو بہت کچھ ہے، کیونکہ میرا درد سننے والا کوئی نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ اگر میں اپنی تکلیف کا ذکر کروں تو لوگ کہیں گے کہ میں آگے بڑھوں، جیسے میں نے کبھی کوشش ہی نہ کی ہو۔ مگر کچھ زخم ایسے ہوتے ہیں جو وقت سے نہیں، بلکہ سمجھنے والے دل سے ٹھیک ہوتے ہیں، اور جب سننے والا نہ ہو، تو الفاظ صفحوں پر اتر آتے ہیں۔

لکھنا میرے لیے محض ایک اظہار کا ذریعہ نہیں، بلکہ ایک پناہ گاہ ہے—جہاں میں بغیر کسی مداخلت کے اپنی کہانی کہہ سکتا ہوں۔ میں بولنے سے نہیں، نظرانداز ہونے سے ڈرتا ہوں، اس لیے لکھتا ہوں، کیونکہ تحریر میں میری آواز دبائی نہیں جا سکتی۔

میری تحریر کا ایندھن ہمیشہ تخلیق نہیں، بلکہ وہ درد ہے جو میرے اندر برسوں سے بسیرا کیے بیٹھا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ ایک دن یہ میرے اندر مستقل رہائش اختیار کرنے کے بجائے ایک راہگیر بن جائے، جو آئے اور چلا جائے، مگر ہمیشہ کے لیے نہ ٹھہرے۔

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here